چھوڑ امید اسے اب نہیں آنا شاید
آنا بھی ہے تو نہیں ہم کو بتانا شاید
صبر آیا ہے ہمیں اشک فشانی سے ہی
مل ہی جائے کوئی اس کو بھی بہانہ شاید
اس نے اچھا ہی کیا بن مجھے بتلائے گیا
جان لے لیتا مری اس کا یوں جانا شاید
ان کا اپنا بھی جو جائے گا بنا بتلائے
تب اس احساس کو سمجھے گا زمانہ شاید
وہ ایک دن آئے گا دریا کے کنارے ماہمؔ
تب مری پیاس کو سمجھے گا زمانہ شاید